حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ان کی نامور شہرہ آفاق کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں ظہر کی جماعت کے بعد قصبہ کھتولی کے مرکز کی مسجد اکبر خاں میں یکے بعد دیگرے چند سفراء مدارس نے اپنے اپنے ادارہ کیلئے تعاون کرنے کا اعلان کیا‘ ابھی لوگ سنتوں اور نوافل سے پوری طرح فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ پچھلی صفوں میں چند دین کے ذمہ دار سمجھے جانے والے لوگ اکٹھا ہوکر کچھ گفت و شنید میں مصروف ہوگئے مدارس اور اہل مدارس اور سفراء مدارس کے سلسلہ میں کچھ باتیں ہورہی تھیں‘ راقم الحروف کو خیال ہوا کہ پہلے سے طے شدہ کوئی میٹنگ ہوگی مگر جب ایک دو لوگوں کےفقرے نماز پڑھتے پڑھتے کانوں میں پڑے تو یہ محسوس ہوا کہ یہ کوئی باقاعدہ میٹنگ نہیں ہے بلکہ دینی ذمہ داری کے زعم میں کچھ دینی حلیہ کے لوگ ان سفراء کے اعلان کے بعد اپنی درد مندانہ گفتگو کررہے تھے اور ان پر فقرے کس رہے تھے ایک حاجی صاحب بولے کہ بس بارات چلی آتی ہے دوسرے ایک ملاجی نے فرمایا: اجی بس پر سنٹیج پر چندہ ہورہا ہے‘ پچاس پرسنٹ پر لوگ چندہ کرتے ہیں‘ تیسری طرف سے ایک حاجی صاحب نے کہا اچھا لوگوں نے دکانیں کھول رکھی ہیں جس کے دل میں آیا مدرسہ کھول کر بیٹھ گیا ایک صاحب بولے: اجی مدرسہ والے سفیروں کو بلاتے ہیں اور ٹھیکے پر رسیدیں دیدیتے ہیں دو سو روپے رسید‘ دھڑا خراب کررکھا ہے‘ دکان پر بیٹھنا مشکل ہوتا ہے۔
اسی مجلس میں ایک نوجوان بھی ان بزرگوں کی دردمندانہ باتیں سن رہا تھا مگر اس کے دل پر اللہ تعالیٰ نے سخاوت کی لذت سے آشنا کردیا تھا بڑےادب سے بولا: بڑوں کے سامنے بولنا تو بے ادبی ہے لیکن آپ اگر اجازت دیں تو میں بھی کچھ کہوں‘ لوگوں نے کہا آپ بھی کہئے اس نے جواب دیا آپ تو فرمارہے ہیں پچاس فیصد پر چندہ ہورہا ہے میں آپ سے کہتا ہوں یہ مان لو کہ چندہ کرنے والے سو روپیوں میں سے 99 روپے خود کھارہے ہیں اور ایک روپیہ مدرسہ میں جمع کررہے ہیں تو بھی میں مدرسہ میں چندہ دینا سعادت کی بات سمجھتا ہوں‘ اس لیے کہ میرے 99روپے وہ کھارہا ہے جو مدرسہ کی خدمت کررہا ہے اور یہ ہمارے ان سو روپیوں سے ہزار درجہ بہتر ہے جو ہم فلم بینی میں‘ شادی بیاہ کی فضول رسموں میں‘ گناہ میں خرچ کرتےہیں۔ نوجوان کی باتیں سن کر سب خاموش ہوگئے اور مجلس برخاست ہوگئی۔ مگر راقم الحروف آج تک سوچ رہا ہے کہ میرے اللہ کا کتنا شکر ہے کہ میرے مولائے کریم نے اس امت کو ایسے گئے گزرے دور میں بانجھ نہیں بنایا‘ مثبت اور خیر کی سوچ رکھنے والے افراد ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ دوسری طرف مجھے اپنے جرم کا احساس آج تک ہے کہ ہم لوگ مدارس اور اہل مدارس کی اہمیت اور بقا کے سلسلہ میں ملت کی ذہن سازی نہیں کرسکے۔
دینی مدارس کو چلانے والے غیرت اور استغنا کے سلسلے میں حد درجہ حساس ہونے کے باوجود آئندہ نسلوں کو دوزخ اور ارتداد سے بچانے کے درد میں رسید کے کاسے اور کٹورے لے کر اپنی عزت نفس کو جن لوگوں کیلئے داؤ پر لگاتےہیں وہی ناسمجھ اپنی سمجھداری کے زعم میں ان پر فقرے کستے ہیں۔ یہ بات بہت تجربہ اور وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ایک دین دار سے دین دار تاجر اور صاحب ثروت‘ پیسہ خرچ کرنے کے سلسلہ میں جس قدر دیانت اور امانت کا لحاظ کرسکتا ہے بالکل گیا گزرا خادم دین اور دینی علم سے وابستہ ایک کارکن اس سے کئی درجہ امانت اور دیانت کے سلسلہ میں حساس اور اللہ کے سامنے جواب دہی سے ڈرنے والا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی فوج کے ان خوش نصیب سپاہیوں کا احترام دل میں ہو کم از کم ان کی شان میں کسی بے ادبی اور گستاخی سے حد درجہ احتیاط رکھی جائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں